CANON OF MAKKAH

سوال
------------
رسول الله صلی الله
علیہ وسلم کے جسمانی دور مبارک میں جب افطار کا وقت ہوتا تو لوگ
مسجدوں سے مغرب کی اذان کی آوازیں آنے کا انتظار کر تے تھے اور ازاں
پر افطار کرتے تھے - پھر زمانہ بدلہ اور آبادیاں دور دور تک پھیل
گئیں تو ازاں کے ساتھ مسجد کے میناروں یا اونچی جگہوں پر لالٹینیں
روشن کر دی جاتی تھیں تاکہ جہاں ازاں کی آواز نہیں پہنچ سکے وہاں لوگ
دور سے روسنی دیکھ کر افطار کر سکیں -فاطمیوں کے دور میں جب انکے دار
الحکومت قاہرہ میں پہلی مرتبہ انکو ایک توپ تحفے میں دی گیئ تو فیصلہ
ہوا کہ اس کا پہلا فایر رمضان کی پہلی تاریخ کو غروب آفتاب کے وقت
کیا جسکی آواز دور دور تک سنی گیئ اور اہل مصر کو افطار کے اعلان کے
لیے یہ طریقہ اتنا پسند آیا کہ بس اسی روز سے افطار کے وقت توپ کے
گولے کو داغنے کی روایت شروع ہو گئی جو آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ
یہ روایت قاہرہ سے نکل کر عرب کے دوسرے ملکوں تک پہنچ گیئ - مکّہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ جدہ میں بھی افطار کے وقت کا
اعلان کرنے کے لیے توپ کے گولے داغے جانے لگے -
ریڈیو ، ٹی وی کی
ایجاد کے بعد اس کی اہمیت قدرے کم ہو گیئ اورمدینہ منورہ اور جدہ میں
یہ روایت دم توڑ گیئ مگر مکّہ المکرمہ میں آج بھی یہ روایت برقرار ہے
آغاز رمضان سے ایک دن
قبل یہ توپ جو آپکو آج کی تصویر میں نذر آرہی ہے مکّہ کے سب سے اونچے
پہاڑ پر رکھ دی جاتی ہے اور اس پر ایک نگران مقرر کر دیا جاتا ہے جو
چوبیس گھنٹے اس کی نگرانی کرتا ہے - اس توب میں ایسا مواد گولے کی
شکل میں رکھ کر دغا جاتا ہے کہ اسکی آواز کی گونج مکّہ میں دور دور
تک سنی جاتی ہے .
مسجد الحرام میں افطار
کے انتظار میں بیٹھے زایریں اگر غور سے سننیں تو مسجد الحرام سے مغرب
کی ازاں کی آواز گونجتے ہی انھیں اس گولے کی آواز بھی سنائی دے گی
افطار کے آغاز پر تو
اس توپ سے گولہ چھوڑا ہی جاتا ہے لیکن پورے رمضان کے مہینے میں ہر
روز دو اور اوقات میں بھی اس توپ سے گولے داغے جاتے ہیں -
- رمضان اورعید کے
چاند ہونے پر بھی اس توپ سے گولے چھوڑے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد
ایک سے زاید ہوتی ہے - عید کے چاند کے بعد یہ توپ پہاڑ سے اتار کر
واپس اسلحہ خانے میں رکھ دی جاتی ہے
آپ صرف یہ بتا دیں
1- جس پہاڑ پر یہ توپ
رکھی جاتی ہے ، اس پہاڑ کا کیا نام ہے ؟
٢- ماہ رمضان میں
افطار کے علاوہ کن دو اوقات میں ایک ایک گولہ اور اس توپ سے چھوڑا
جاتا ہے ؟
اور
٣- رمضان اور عید کے
چاند نظر آنے کے موقع پر اس توپ سے کتنے گولے داغے جاتے ہیں-؟
جواب نوٹ فرمائیں پلیز
===============
جس پہاڑ پر یہ توپ
رکھی جاتی ہے اس پہاڑ کا نام '' جبل مدافع ''ہے -
اور اس پہاڑ کا نام '
جبل مدافع '' بھی اس ہی لیے پڑا کہ یہاں رمضان کی یہ توپ رکھی جاتی
ہے کیونکہ عربی میں توپ کو '' مدافع '' کہتے ہیں -
رمضان میں افطار کے
علاوہ دو اور اوقات میں بھی اس سے گولے داغے جاتے ہیں - ایک سحری کے
آغاز کے وقت اور دوسرے سحری کے اختتام کے وقت - گویا رمضان میں ہر
روز تین گولے اس سے داغے جاتے ہیں -
ایک بات کی وضاحت
ضروری ہے کہ یہ بات تو سجھ میں اتی ہے کہ سحری کے اختتام پر گولہ
داغا جائے لیکن سحری کا آغاز ؟---------- بڑا عجیب سا جملہ لگتا ہے
---------- تو سجھ لیجے کہ مکّہ میں لوگ ہر وقت طواف میں مصروف رہتے
ہیں اور اس کے علاوہ نوافل اور . قیام اللیل کی نمازیں جاری رہتی ہیں
، لوگ قرات قرآن پاک میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے علاوہ لوگ رات میں
بازاروں میں خریداری میں بھی مصروف ر رہتے ہیں ، لہذا ضروری ہوتا ہے
کہ لوگوں کو چوکنا کیا جائے کہ اب سحری کا وقت قریب ہے - اس لیے سحری
کے اختتام سے دو ڈھائی گھنٹے قبل '' سحری شروع '' کا ایک گولہ داغا
جاتا ہے جس لوگ چوکنا ہو جاتے ہیں اور سحری کے انتظامات میں لگ جاتے
ہیں -
اس کے علاوہ رمضان کے
اور عید کے چاند ہونے کے موقع پر سات سات گولے یکے بعد دیگرے داغے
جاتے ہیں - اس کے علاوہ نماز عید سے قبل بھی کچھ گولے داغے جاتے ہیں
- کل ملا کر تقریبا'' ایک سو پچاس گولے ایک ماہ میں فایر کیے جاتے
ہیں اور بھر یہ توپ واپس اسلحہ خانے میں رکھ دی جاتی ہے اگلے سال کے
لیے-
اگر آپ خود اپنی
آنکھوں سے یہ منظر دیکھنا چاہیں کہ کیسے مغرب کے وقت مسجد الحرام میں
'' الله اکبر'' کی صدا بلند ہوتے ہی اس توپ سے گولہ داغا جاتے ہے تو
پلیز آپ اس فلم کو ضرور دیکھیں . مس مت کریں اس کو . پلیز کلک -
http://www.youtube.com/watch?v=pJfitBjnPGc
IN ENGLISH
During the days of
Prophet Muhammad (peace be upon him), hearing the Maghrib Adhan
(call for prayer) was the only indication for Muslims to break
their fast.
With time, Ramadan
became colorful and more festive and in the Umayyad era they used
to hang lanterns on the minaret of every mosque at iftar time
(breaking of the fast) as indication and take them down after, for
those who cannot hear the Adhan.
Then came the Fatimid
era and Muslims started a new tradition where they shot cannons as
the signal for iftar time.
The story of the
Ramadan Cannon dates back to the time of the Fatimid Caliph in
Cairo. He received the gun as a present and ordered his assistants
to try it out. The experiment took place about sunset during the
first day of Ramadan. The people of Egypt took it as a sign to end
the day’s fast.
Since then, the
caliph ordered that the gun should be fired at sunset and this
became a Ramadan tradition.
This tradition has
spread to many Islamic countries including Turkey, Sudan, Morocco,
Syria, Jordan and the Gulf countries.
More than 70 years
ago in Makkah, Muslims used to open their windows to hear the call
for iftar in Ramadan.
Historically in the
Kingdom, the Ramadan Cannon has served as a mean to announce the
end of the fast at sunset. However, today it plays different but
still important role, namely to keep Ramadan traditions alive.
Makkah is the only
place in the Kingdom that still holds this tradition.There used to
be three Ramadan cannons in the Kingdom but now we only have one
in Makkah .
As soon as the
fasting month is over, the cannon goes back into storage and we
take good care of it throughout the year.
The cannon is not a
real weapon; its job is to only make a loud echoing noise.
The cannon is located
on the tallest mountain of Makkah
and it’s known to be
the highest place in Makkah and close to the Haram.”
CAN YOU TELL
1- ON WHICH MOUNTAIN
THIS CANNON IS PLACED. PLZ RELL NAME OF MOUNT ?
2- How many times it
is fired ia whole day of ramazan ?
3- On the eve of
sighting moon of RAMADAN and EID , how many times it is fired.
Tell the number
LIST PAGE
NEXT PAGE
PREVIOUS PAGE