وہ گٹھلی تو تم نے نکال لی تھی
======================
بے دانہ معجزاتی کھجور ( سکھل )
======================


جب ہم کسی مذہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اول نمبر پر ان باتوں پر یقین کرنا پڑتا ہے جو اس مذہب کی بنیادی کتاب (الہامی یا غیر الہامی ) میں درج ہوتی ہیں - دین اسلام میں اس مقام پر بلا شبہ '' قرآن حکیم '' ہے -

دوم درجے پر وہ باتیں آتی ہیں جو اس مذہب کے داعی کے احکامات ہوتے ہیں یا اسکی حر کات و سکنات ہوتی ہیں جو اسکے سچے پیرو کار آئندہ کی نسلوں تک پہنچاتے ہیں - ان باتوں میں داعی کے زمانے میں موجود پیروکاروں کا سچا ہونا اور بعد کی نسلوں کا ان باتوں کو جوں کا توں رکھنا ان باتوں کے سچ ہونے کی بنیادی شرط ہوتی ہے - دین اسلام میں اس مقام پر '' احادیث صحیح '' کا مقام ہے اور یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جسکے پیروکاروں نے اس پر بہت محنت کی اور احادیث مبارکہ کو دین اسلام میں '' قران پاک '' کے بعد یقین کے درجے تک پہنچایا ہے -

تیسری صورت تاریخی حوالوں کی ہوتی ہے جو مورخ تحریر کرتا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں یہ حوالے ملتے ہیں - کیوں کہ تاریخ کا ہر صفحہ دنیاوی علوم کا ماہر ایک عام انسان تحریر کرتا ہے جس میں صرف اس حد تک تو ملاوٹ کی گنجائش موجود ہوسکتی ہے جہاں اس تاریخ دان کا کوئی ذاتی مفاد موجود ہو یا اس دور کے حکمران تاریخی واقعات کو اپنے مقاصد میں تبدیل کرنا چاہیں - لیکن ایک مخصوص موضوع کی تاریخ لکھنے والے صرف ایک خاص خطے کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ وہی تاریخ دنیا کے دوسرے خطوں میں بسنے والے مورخ بھی لکھ رہے ہوتے ہیں ، اس لیے تاریخ بھی بہت حد تک قابل اعتبار دستاویز تصور کی جاتی ہے -

چوتھی صورت روایات کی ہوتی ہے جوزبانی ، سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتی جاتی ہے اور کسی مستند کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن صدیوں سے یہ روایات اس قدر شد و مد
سے بہ زبان تذکرہ رہتی ہیں کہ ان کی سچائی پر یقین سا ہونے لگتا ہے - جیسے روایات میں ہی آیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب '' غار ثور '' میں پناہ لی تو مکڑی نے اسکے دھانے پر جالا تن دیا اور کبوتریوں نے اس پر انڈے دے دیے تاکہ قریش کے کفار جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں تھے انھیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ اس غار کے اندر کوئی موجود نہیں کیوں کہ مکڑی کا جالا اور کبوتروں کے انڈے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس غار کو بہت عرصے سے کسی نے استمعال ہی نہیں کیا - اب دیکھیں یہ واقعات روایات ہیں اور یقین کی حد تک پہنچ چکے ہیں - اسی طرح کی روایات کے ساتھہ کچھ باقیات بھی ہوتی ہیں جو اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں جس سے دل میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ شاید یہ سب سچ ہو ، اسلئے اصل واقعہ پر آنے سے پہلے میں الله سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں :-
Allah forgive me if i missed even a word detail or added some wrong or did mistakes while sharing all this moment. But i love to share these moments with all of you .May Allah bless all of us .Ameen

ایک بار ایک یہودی اس نیت کے ساتھہ رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کہ وہ معاذ الله آپ صلی الله علیہ وسلم کو زچ کر دے گا - وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ الله سبحانہ و تعالی کے سچے اور بر حق نبی ہیں اور انکی شان اقدس اسقدراعلی و ارفع ہے کہ انکا نام سر بلند رکھنے کے لیے دنیاوی اصول الٹ پلٹ ہوجاتے ہیں - مشرق میں ڈوبا سورج پلٹ کر آسمان پر پھر سے دمکنے لگتا ہے - اشارہ انگشت سے ابکی قمر دو لخت ہوا جاتا ہے - آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر شجر جھک کے سلام کرنے لگتا ہے - براق پر سوار ہوتے ہی سمندر کی لہریں تھم جاتی ہیں اور کائنات حالت سکوت میں چلی جاتی ہے - ہجر شجر چرند پرند پر وقتی موت واقع ہوجاتی ہے -

وہ شریر یہودی محض شرارت میں ، کائنات کی اس عظیم ترین ہستی کی خدمت میں کھجور کی ایک گٹھلی پیش کرتا ہے اوریہ شرط رکھتے ہوۓ کہتا ہے کہ اگرآپ آج اس گٹھلی کو مٹی اور پانی کے نیچے دبا دیں اور کل یہ ایسا تناور کھجور کا درخت بن کر زمین پر لہلہانے لگے اجس میں پھل یعنی کھجوریں بھی پیدا ہوجائیں تو میں آپکی تعلیمات پر ایمان لیے آؤں گا - گویا مسلمان ہو جاؤں گا -

رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسکی یہ شرط تسلیم کرلی اور ایک جگہ جاکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس گٹھلی کو مٹی کے نیچے دبا دیا اور اسپر پانی ڈالا اور الله سبحانہ و تعالی سے دعا بھی کی اور وہاں سے واپس تشریف لیے آیے -
اس یہودی کو دنیاوی اصولوں کی کسوٹی پر یقین کامل تھا کہ ایک دن میں کسی طرح بھی کھجور کا درخت تیار نہیں ہو سکتا تھا لیکن رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کی روحانیت اور اپکا اعتماد اسکے دل میں کھٹک اور خدشہ ضرور پیدا کر رہا تھا کہ کہیں کل ایسا ہو ہی نہ جایے کہ کھجور کا درخت اگ جایے اور اسے ایمان لانا پڑ جایے - اسنے اپنے اس وسوسے کو دور کرنے کے لیے پھر دنیاوی اصولوں کی مدد لی اور شام کو اس مقام پر جا کر جہاں کھجور کی گٹھلی آقا دو جہاں صلی الله علیہ وسلم نے بوئی تھی اسکو وہاں سے نکل لیا اور خوش خوش واپس آ گیا کہ اب کھجور کا نکلنا تو درکنار ، کھجور کے درخت کا نکلنا ہی محال ہے - لَیکِن وہ نہیں جانتا تھا کہ جب معاملہ الله سبحانہ و تعالی اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم کے درمیان ہو تو دنیاوی اسباب بے معنی ہو جاتے ہیں -
اگلے دن آقا دو جہاں صلی الله علیہ وسلم اور وہ یہودی مقام مقررہ پر پہنچے تو وہ یہودی یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ وہاں ایک تناور درخت کھجور کے گجھہوں سے لدا کھڑا ہے - اس یہودی نے جب اسکی کھجور کو کھایا تو اسمیں گٹھلی نہیں تھی تو اسکے منہ سے بے اختیار نکلا:-
'' اسکی گٹھلی کہاں ہے  ؟ '' -


مرقوم ہے کہ اس موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ '' گٹھلی تو تم نے کل شام ہی نکال لی تھی اسلئے گٹھلی تو کھجور میں نہیں ہے البتہ تمہاری خواہش کے مطابق کھجور کا درخت اور کھجور موجود ہے -

 کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی الله سبحانہ تعالی کے اذن سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس معجزے کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا -
اس واقعہ کے بعد سے آج تک بغیر گٹھلی والی معجزاتی کھجور مدینہ منورہ میں خوب اگتی ہے - دوکانوں پر فروخت بھی ہوتی ہے - اس کھجور کا اصل نام '' سکھل '' ہے - اسے
'' سخل'' بھی کہتے ہیں اور اگر آپکو نام یاد نہ بھی رہے تو آپ اسے '' بے دانہ کھجور '' کہ کر بھی طلب کر سکتے ہیں -

اب بہت زیادہ علم رکھنے والے بلخوصوص '' نباتیات '' ( BOTANY) کے ماہرین یہ بھی پوچھیں گے کہ جب '' سکھل کھجور '' میں گٹھلی نہیں تو اسکی مزید کاشت چودہ سو سالوں سے کیسے ہو رہی ہے تو بتانے والوں نے بتایا ہے کہ اس کے سوکھے پتے کھجور کے باغوں میں مٹی میں مدغم ہوکر نیے پودوں کی بنیاد بن جاتے ہیں - الله اعلم
==========================
میں مشکور ہوں بہن شازیہ خان کا جنہوں نے میری درخواست پر اپنے گزشتہ رمضان میں ادا کیے جانےوالے عمرے کی واپسی پر بڑی محبت سے '' سکھل کھجور '' کا تبرک مجھہ تک پہنچایا جسکی بنا پر '' اھلا '' ویب سایٹ کے ذریعے بغیر گٹھلی والی کھجور کی تصویریں اور روحانی معلومات آپ تک پہنچنا ممکن ہوئی -
JAZAK ALLAH BEHN Shazia Khan


NEXT PAGE .

PREVIOUS PAGE.

LIST PAGE






.




//