SAQIFAH
              BANI SA'IDAH
              
              Trees of  SAQIFAH BANI SA'IDAH may bee seen 
    
    
    Saqifah bani Sa'idat سقيفة بني ساعدة Madinah Al
      Munawwarah The Saqīfah (Arabic: السقيفة), also known as Saqīfah
      banī Sāˤidat (Arabic: سقيفة بني ساعدة), was a roofed building
      used by the tribe called the banū Sāˤidat of the faction of the
      banū Khazraj tribe of the city of Medina in the Hejaz,
      northwestern Arabia. The name of the house is used as shorthand
      for the event, or the gathering, which was a crucial turning point
      in the history of Islam. On the day Muhammad died (June 8, 632
      CE), the Medinan Muslim or "Ansar" gathered in the Saqifah to
      discuss the future and leadership of the Muslims. There were two
      Ansar tribes, the Khazraj and the Aws; both were present. However,
      the Muhajirun, or Muslim emigrants from Mecca, had not been
      notified of the gathering. When Muhammad's companions, Abu Bakr
      and Umar, learned of the gathering, they rushed to the meeting.
      After a tumultuous debate, the details of which are highly
      contested, those who gathered there gave their allegiance, or
      bay'ah, to Abu Bakr as the new leader of the Islamic community.
      
      Board out side saqifah bani
            sa'idah 
    
    ========================================================
    سقيفة بني ساعدة
    ==========
    اس مقام کو اسلامی
      تاریخ میں '': سقيفة بني ساعدة '' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے -
      انتہائی اہم مقام ہے اور مسجد النبوی سے ٢٠٦ میٹر مغرب میں پیدل کے
      راستے پر ہے - 
    
    ''سقيفة '' عربی
      میں شیڈ ، چھپر یا چھت کو کہتے ہیں - اصل میں یہ 
    مدینہ کے ایک
      قبیلے '' بني ساعدة '' کا '' سقيفة '' یعنی کمرہ یا ہال تھا جو رسول
      الله صلی الله علیہ کے زمانے میں مختلف اجلاسوں کے لیے استعمال ہوتا
      تھا لیکن اسکی اصل وجہ شہرت یہ ہے کہ جس دن الله کے پیارے نبی رسول
      مکرم سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا اس دن
      کافی بحث و مباحثے کے بعد اہل مدینہ کی اکثریت نے سیدنا ابوبکر صدیق
      ر - ض کے ہاتھوں پر یہاں بیت کی اور انکو اس مقام پر پہلا مسلمانوں
      کا امیر المومینین منتخب کیا -
    
    اسلام کے دو مکتبہ
      فکر طبقات میں اس مقام پر جو خلافت کا فیصلہ ہوا اسپر شدید اختلاف ہے
      اور اھلا'' کے اس فورم پر ہم کسی اختلافی مسلے کو زیر بحث نہیں لاتے
      کیوں کہ ہمارا مقصد صرف مکّہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ کے ان تاریخ
      ساز گوشوں سے آپ کو روشناس کرانا ہوتا ہے جو بحرحآل اہمیت کے حامل
      ہیں اور ان کی زیارت کرنا ہر مسلمان کا حق ہے - اور ہم میں سے اکثر
      لوگ جو زندگی میں ایک ادھ بار ہی حج یا عمرے کے لیے حجاز مقدس جا
      پاتے ہیں انکو تو اور زیادہ ان اسلامی جھروکوں کے مطلق جاننا چاہیے
      کیوں کہ نہ جانے زندگی
    main کبھی دوبارہ
      انھیں ان مقدس شہروں تک جانے کا موقع ملے یا نہ ملے - 
    
    رسول الله صلی
      الله علیہ وسلم کے وصال مبارک پر ابھی اہل خانہ جس میں سیدنا علی ر-
      ض بھی شامل تھے تدفین کے عمل سے گزر رہے تھے اور عاشقان رسول اور
      رفقا رسول صلی الله علیہ وسلم جس میں سیدنا ابوبکر صدیق ر- ض اور
      سیدنا عمر ر - ض بھی شامل تھے ,غم سے نڈھال مسجد النبوی میں موجود
      تھے کہ اس دوران انصار یعنی مدینہ کے دو قبائل '' اوس '' اور '' خزرج
      '' عجلت میں نیے خلیفہ کا انتخاب کرنے '' سقيفة بني ساعدة '' '' پہنچ
      گیے - مہاجرین مدینہ جن میں سیدنا ابو بکر صدیق سیدنا عمر سیدنا
      عثمان سیدنا علی ر - ض سمیت دیگر اصحاب شامل تھے انھیں اس اجلاس کی
      کوئی خبر نہ دی - جب یہ خبر سیدنا ابو بکر صدیق تک پہنچی تو وہ سیدنا
      عمر ر - ض کو لیے کر '' سقيفة بني ساعدة '' '' کے اس مقام تک پہنچے -
      انھیں علم تھا کہ خلیفہ , قریش قبیلے یعنی مکّہ سے ہونا چاہے کیوں کہ
      قریش قبیلہ سب سے معزز قبیلہ تصور کی جاتا تھا اور یہی وہ قبیلہ تھا
      جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے نازک موقع پر امت مسلمہ
      کو ایک جسم کی صورت رکھ سکتا تھا - کافی بحث و مباحثے کے بعد وہاں
      موجود تمام لوگوں نے سیدنا ابو بکر صدیق ر - ض کے ہاتھوں پر بیت کی
      اور انھیں اس ہی مقام یعنی '' سقيفة بني ساعدة '' جسکی تصویر اوپر دی
      گئی ہے ،جسکی تصویر اوپر دی گئی ہے ،خلیفہ منتخب کیا - اس موقع پر
      سیدنا علی کرم الله وجھ جو تدفین رسول صلی الله علیہ وسلم میں مصروف
      تھے ، موجود نہیں تھے - اور یہی دو مکتب فکر میں اختلاف کا سبب بنا -
    
    اس نازک موقع پر اگر مدینہ کے دونون قبائل یعنی '' اوس ''
      اور ''خزرج '' جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتے تو شاید یہ معاملہ انتہائی
      احسن طریقے سے پایے تکمیل کو پہنچ جاتا اور سب ایک کی خلافت پر متفق
      ہوجاتے کیوں کہ ابوبکر، عمر ، عثمان و علی ایک ہی معلم یعنی آقا
      نامدار سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم کے شاگرد تھے تو بھلا انمیں
      کوئی تضاد ہو کم از کم میں تو اس کا تصور نہیں کر سکتا -- ہاں غلط
      فہمی یا قبائل کی عجلت کوئی مسلۂ پیدہ کر گئی ہو تو دوسری بات ہے - 
      
      Another present view of saqefah
            bani sa'idah 
      
      -------------------------------------------------------------------
    
    LIST PAGE 
      Previous Page 
      Next Page