لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں کیسے قران پاک نازل ہوا

لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں کیسے قران پاک نازل ہوا
=========================
غار حرا میں نازل ہونے والی پہلی وحی کے بعد تواتر سے تھوڑا تھوڑا قران ٢٣سالوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا لیکن خود قران پاک میں ارشاد ہے
'' بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے '' - دونوں باتیں الحمد للّہ درست ہیں پر کیسے ؟ - آیے جانتے ہیں -
( اس مضمون کی تیاری میں مجھہ کم علم سے سہوا '' کوئی چوک ہو جائے تو مضمون کی ابتدا میں ہی میں الله سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوں -
"أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ"
( میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں )
===================================================
رمضان اھلا'' کے ساتھہ
================
خاکروب حرم ==== وسیم احمد خاکی
========================
علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:
===================
پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے
''بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ o فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ '' ( سوره البروج آیت ٢١ ، ٢٢ )
ترجمہ :- بلکہ یہ قران ہے بڑی شان والا - لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے -
===================
دوسرے مرحلے میں لوح محفوظ سے زمینی آسمان میں موجود ایک مقام بیت العزت میں شب قدر کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیتیں ہیں
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ( سورہ دخان آیت ٣ )
ترجمہ :- ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے، بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ( سورۃ القدر آیت ١ )
ترجمہ :- بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔
درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں: عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا، جہاں سے جبریل علیہ سلام , رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر لے جایا کرتے تھے"۔
ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب المرشد والوجيز عن هذا النزول میں لکھا ہے:-
"علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے، جب جبریل کا ان پر سے گزر ہوا تو انہیں ہوش آیا اور بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے: -
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ o كِرَامٍ بَرَرَةٍ (سوره عبس، آیت ١٥، ١٦ )
ترجمہ :- جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھہ میں ہے o جو بزرگ اور پاکباز ہیں o
=================
تیسرے مرحلے میں بیت العزت سے جبریل علیہ سلام نے بتدریج رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر پر اتارا- نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ پر محیط ہے۔
تمام آسمانی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئی، چنانچہ قرآن میں مذکور
ہے: -
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًاo ( سوره الفرقان ، آیت ٣٢ )
ترجمہ :- کافر کہنے لگے انپر( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ) قرآن سارے کا سارا ایک ساتھہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ اسی طرح ہم نے تھوڑا تھوڑا اتارا تا کہ اس سے ہم تیرا دل قوی کریں ہم نے اسے ٹھہرا ٹھہرا ہی پڑھ سنایا ہے -
۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں:-
الف ) -- کفار کی مخالفت، اذیت رسانی اور سخت کشیدہ حالات میں پیغمبر محمد کی دل بستگی کے خاطر ایسا کیا گیا ، سورہ فرقان کی آیت === "ورتلناہ ترتيلاً" === میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔
ب )-- مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دلائل کا یکے بعد دیگرے غلط ثابت
کرنا : - قران پاک میں ہے :-
وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا ( سوره الفرقان ، آیت ٣٣ )
ترجمہ :- یہ تیرے پاس جو کوئی مثال لایں گے ہم اسکا سچا جواب اور عمدہ توجیح تجھے بتا دیں گے -
ج )-- سیدنا محمد ارسول الله صلی الله علیہ وسلم ور ان کے ساتھیوں کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔
د )-- احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم و رواج اور عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتاً چھوڑ دے، مثلاً شراب پینا جسکی حرمت کا قرآن پاک میں ایک دم حکم نہیں آیا بلکہ آہستہ آہستہ اسکو مکمل حرام قرار دیا گیا -
کوئی اختلاف نہیں یعنی اجماع ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے شب قدر میں یکبارگی اتارا گیا۔۔جیسا کے ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔۔پھر اسے آسمان دنیا کے بیت العزت میں رکھا گیابعد میں جبریل امین اس سے تھوڑا تھوڑا کرکے اوامر ونواہی ( يعني الله تعالی کے احکامات اور ارادے سے) اور اسباب لے کر نازل ہواکرتے۔ اور یہ23 سال میں سب کچھ ہوا۔
' بیت العزت '' میں نزول قرآن کی حکمتیں:-
=========================
قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے' بیت العزت '' میں اتارنے کی بظاہر حکمت یہ نظر آتی ہے کہ:-
۱۔ لوح محفوظ سے بیت المعمور میں اسے نازل فرما کر اللہ تعالی نے فرشتوں کو باور کرایا کہ میں ہی عالم الغیوب ہوں۔جس سے کوئی شے چھپی نہیں۔ کیونکہ اس قرآن میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر بھی تھا جو ابھی واقع نہیں ہوئی تھیں۔
۲۔ ختم المرسلین ﷺ کامقام اور فضیلت بیان کردی جائے۔نیز امت محمد ﷺ کی تکریم اور اس کی تعظیم بھی باور کرائی جائے۔اس نزول کا اعلان عام فرشتوں میں کر دیا گیا کہ یہ آخری کتاب ہے اور جسے خاتم المرسلین پر ان کی امت وسط کے لئے نازل کیا جا رہا ہے۔اللہ تعالی اس امت کی تعریف کررہا ہے کہ میری ان پر ایک خاص رحمت یہ بھی ہے۔اسی معنی میں معجم کبیر از امام طبرانیؒ حدیث نمبر ۱۲۹۳۰میں ہے سورۃ الأنعام جب آپ ﷺ پر اتری تو ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تھے۔ اللہ تعالی نے جبریل امین کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ اس قرآن کی املاء فرشتوں کی معزز اور نیک جماعت کو کرائیں جسے وہ لکھیں اور اس کی تلاوت بھی کریں۔
۳۔ کتاب کو یکبارگی اتارنے میں آپ ﷺ اور موسیٰ کے درمیان برابری ہوجائے ۔مگر فضیلت محمد ﷺ بھی بیان کردی جائے کہ ان پر یہ قرآن بتدریج اتارا جائے گا تاکہ وہ اسے اچھی طرح حفظ کرسکیں۔
==========================================
ایک خاص آور دلچسپ بات جو اس مضمون کی تیاری میں سامنے آئی وہ یہ ہے کہ زمینی کعبہ '' بیت العتیق '' کے عین اوپر ساتویں آسمان پر فرشتوں کا کعبہ '' بیت المعمور '' ہے جسکا علم مجھے بھی تھا اور آپکو بھی یقینا'' ہوگا لیکن پہلے آسمان پر موجود عبادت کے مقام '' بیت العزت '' جسکا ذکراوپر آ چکا ہے اسکو اکثر محققین نے '' بیت المعمور '' ہی کہا ہے جو قابل فہم بات نہیں ہے - اس لیے جستجو کی تو اتنا تو ضرور علم ہوا جو مجھے پہلے نہ تھا کہ زمین کے علاوہ ساتوں آسمانوں پر کوئی نہ کوئی بیت ضرور موجود ہے تا کہ وہاں موجود فرشتے اس پر الله کی عبادت کریں - اس بات کا ذکر ''تفسیر ابن کثیر '' میں سوره الطور کی ابتدائی چار آیات کی تفسیر میں یوں کیا گیا ہے :-
'' یہ بیت المعمور ٹھیک خانہ کعبہ کے اوپر ہے اور ساتویں آسمان پر ، یوں تو ہر آسمان میں ایک ایسا گھر ہے جہاں اس آسمان کے فرشتے الله تعالی کی عبادت کرتے ہیں پہلے آسمان پر جو اسی جگہ ہے اسکا نام بیت العزت ہے - واللہ اعلم - ''
اس سسلے مزید تحقیق درکار ہے لیکن زمینی بیت یعنی '' کعبہ مشرفہ '' کے ساتھہ ساتویں آسمان کے بیت '' '' بیت المعمور '' جسکا ذکر قران پاک میں بھی موجود ہے اور پہلے آسمان کے بیت , ''بیت العزت '' کی حقیقت تو الحمد للّہ علم میں آ چکی ہے
تا ہم بقیہ پانچ آسمانوں بھی کیا ایسے ہی بیوت موجود ہیں ، اس کی تحقیق لازمی ہے کیوں کہ تفسیر ابن کثیر میں بھی اس کا ذکر کر کے - '' واللہ اعلم '' لکھا ہے جو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ مزید تحقیق درکار ہے - اہل علم حضرات اس کے بارے میں کچھہ جانتے ہوں تو مجھہ کم علم کی ضرور رہنمائی فرمائیں -
غار حرا میں نازل ہونے والی پہلی وحی کے بعد تواتر سے تھوڑا تھوڑا قران ٢٣سالوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا لیکن خود قران پاک میں ارشاد ہے
'' بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے '' - دونوں باتیں الحمد للّہ درست ہیں پر کیسے ؟ - آیے جانتے ہیں -
( اس مضمون کی تیاری میں مجھہ کم علم سے سہوا '' کوئی چوک ہو جائے تو مضمون کی ابتدا میں ہی میں الله سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوں -
"أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ"
( میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں )
علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:
پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے