دار ارقم
(جہاں سیدنا عمر رضی الله و تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا )
======================================================

سوال
====
آج سے پچاس سال قبل تک حجاج اور عمرہ کرنے
والوں کو ''صفا '' اور ''مروا'' کی سعی کرنے کے لیے مسجد الحرام سے
باہر نکل کر ایک ایسی گلی میں سعی کرنی پڑتی تھی جسکے دونون اطراف
دوکانیں اور مکانات بنے تھے -
اور ان ہی مکانات میں سے ایک ایسا مکان بھی
دوران سعی حجاج کی نظروں کے سامنے سے گزرتا تھے جو اسلامی تاریخ
میں بہت اہمیت کا حامل ہے - یہ مکان ایک جلیل القدر صحابی کا تھا
اور اس مکان کی پیشانی پر ایک لوح یا بورڈ لگا تھا جس پر ان صحابی
کا نام لکھا ہوا تھا - اس وقت کے خوش قسمت حجاج اس مکان کی زیارت
کرتے تھے اور اپنی آنکھوں کو اس کی زیارت سے ٹھنڈا کرتے تھے -
اھلا'' کے پاس الحمداللہ اس مکان کی اس وقت کی وہ تصویر بھی موجود
ہے جس پر صحابی کا نام مبارک درج ہے جو آپکی خدمت میں جواب دیتے
وقت انشااللہ پیش کر دی جائے گی -
مسجد الحرام کی جدید
تعمیر کے بعد کیون کہ ''صفا '' اور '' مروا '' کی پہاڑیاں اور پورا
سعی کا علاقہ اب مسجد الحرام کی بونڈری کے اندر آگیا ہے ، اس لیے
ظاہر ہے وہ با برکت مکان کا مقام بھی بھی اب مسجد الحرام کے اندر
صفا ارر مروا کے درمیان اس راہداری میں آگیا ہے جہاں آج کل سعی کی
جاتی ہے -
ظاہر ہے اب وہ مکان تو موجود نہیں تاہم میں
نے سرخ رنگ کے دایرے میں اس مقام یا مکان کی نشاندھی کر دی ہے -
آج کل لاکھوں حجاج اور عمرہ کرنے والے کئی بار اس مقام کے پاس سے
گزرتے ہیں مگر علم نہ ہونے یا مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہہ سے وہ
اس مقام کی روحانی یادوں کی لذت سے محروم رہتے ہیں -
اس مقام پر جن صحابی کا مکان تھا وہاں اسلامی
تاریخ کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جسنے اسلام کو خوب پھلنے پھولنے
کا موقع فراہم کیا اور اس واقعہ سے اس وقت کے مسلمانوں میں خوشی کی
لہر دوڑ گئی- ایک بات اور ذہن نشین رہے کہ یہ واقعہ رسول الله صلی
الله علیہ وسلم کی ایک دعا کا نتیجہ بھی تھی -
آپ صرف اتنا بتادیں کہ اس مقام پر جہاں تصویر
میں سرخ دائرہ بنا ہے ، کسی صحابی کا مکان تھا اور اسلامی تاریخ
میں یہ مکان کس نام سے مشھور ہے - اور یہاں کونسا روح پرور واقعہ
رونما ہوا جس سے اس وقت کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی -
================
jawab
===========
اسلام کے انتہائی ابتدائی دنوں میں جب محض
انتالیس [ ایک کم چالیس ] افراد حلقہ بگوش اسلام ہوے تھے اور دین
اسلام کی جڑیں ابھی مکّہ میں مظبوط نہیں ہوئی تھیں - یہ تصور بھی
اسوقت عبت تھا کہ مکّہ کی سر زمین
پر کھلے بندوں الله کے دین کی تبلیغ کی جاسکے
- اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پوشیدہ طریقوں سے دین کا
پیغام اہل مکّہ کے کفار تک پہنچا رہے تھے - اس کے لیے ان دنون آپ
صلی الله علیہ وسلم نے صفا اور مروا کی پہاڑی کے درمیان ، صفا سے
قدرے قریب موجود ایک صحابی کے گھر کو تبلیغ دین کا مرکز بنایا تھا
اور ان صحابی کا نام '' سیدنا ارقم '' [ ر - ض ] تھا - اور اس مکان
کو '' دار ارقم '' یعنی ارقم کا مکان کہا جاتا تھا - عربی میں ,
دار مکان یا اقامت گاہ کو کہتے ہیں -
( اوپر دی گئی تصویر میں بلیک اینڈ واہیٹ
تصویر دیکھیں )
مسلمان اس وقت مادی
پیمانوں میں بہت کمزور تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی
خواہش تھی کہ مکّہ میں موجود عمر نامی دو جری اور بہادر انسانوں
میں سے ایک عمر کو الله اگر ایمان کی نعمت عطا فرما دیں تو اسلام
تیزی سے پہلے پھولے گا - اس خواہش کا اظہار آپ صلی الله علیہ وسلم
اپنی دعا میں بھی کر چکے تھے کہ '' یا الله آپ دو عمروں میں سے کسی
ایک کو مسلمان کر کے اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع عطا فرمائیں -
ان میں سے ایک '' عمر ابن خطاب '' تھے جو بعد میں خلیفتہ المسلمین
بنے اور دوسرا '' عمر ابن ہشام '' تھا جو جہالت کی تاریکیوں میں ہی
پڑا رہا اور بعد میں جاہلوں کا سردار یعنی '' ابو جہل '' کھلایا -
الله رب رحیم نے اس دعا کو عجب نرالے انداز
میں قبول کیا -
عمر بن خطاب ہاتھہ میں تلوار تھامے اس برے
ارادے سے گھر سے نکلے کہ آج وہ اس نبی کو جو مکہ میں ایک الله کی
عبادت کی دعوت دے رہا ہے اسے معاذ الله شہید کردیں گے - اپنی بہن
کے گھر پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں
اور قرآن پاک پڑھ رہے ہیں - وہ دونون آپکو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں -
عمر بن خطاب ان دونوں کو زد و کوب کرتے ہیں پر وہ ثابت قدم رہتے
ہوے کہتے ہیں ''تم خواہ ہمیں جان سے ہی کیوں نہ ماردو مگر اب ہم اس
دین سے کبھی منہ نہ موڑیں گے ''
یہ سن کر عمر بن خطاب کہتے ہیں '' ذرا مجھے
بھی سناو کہ ایسا کیا خاص ہے اس کلام میں -'' آپکی بہن نے سورہٴ
طحہٰ
چند آیات سنائیں اور عمر بن خطاب کے دل میں
ایمان کا شعلہ بھڑک اٹھا - آپ دیوانہ وار ''دار ارقم '' کی جانب
دور پڑے - ( اوپر دی گئی تصویر میں بلیک اینڈ واہیٹ تصویر دیکھیں )
-
''دار ارقم'' میں رسول الله صلی الله علیہ
وسلم کے گرد بیٹھے اصحاب اکرم نے جب عمر بن خطاب کو داخل ہوتے ہوے
دیکھا تو وہ ڈر گے کہ کہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو
نقصان پہنچانے تو نہیں آے- وہ بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی
حفاظت کے لیے سینہ تان کر کھڑے ہو گیے مگر رسول الله صلی الله علیہ
وسلم کی نظر نبوت سب جانچ چکی تھی کہ آج معامله کچھ اور ہے -آپ نے
اصحاب اکرم سے کہا '' عمر کو آنے دو '' -
عمر بن خطاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوے اور با آواز بلند کلمہ پڑھا اور حلقہ بگوش اسلام
ہو گیے - آپ چالیسویں شخص تھے جو دائرہ اسلام میں داخل
ہوے - سیدنا عمر کے مسلمان ہوتے ہے ''دار
ارقم '' میں موجود مسلمانوں نے اس قدر بلند آواز میں نعرہ تکبیر
بلند کیا کی مکّہ کی گلی کوچوں کے در و بام لرز اٹھے اور کفّار مکہ
کو یقین ہوگیا کہ آج مسلمانوں کو کوئی بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے -
مسلمان ہونے کے بعد سیدنا عمر نے رسول الله
صلی الله علیہ وسلم سے پہلا سوال یہ کیا کہ '' اے الله کے رسول کیا
ہم حق پر نہیں ہیں ؟ ''
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ '' بےشک ہم حق پر ہیں ''
تب سیدنا عمر [ ر ض ] نے پر جوش انداز میں
کہا کہ '' آج سے ہم پوشیدہ انداز میں عبادت نہیں کریں گے بلکہ کھلے
عام سامنے موجود کعبہ مشرفہ کے قریب عبادت کریں گے - پھر
'' دار ارقم '' میں موجود مسلمانوں کی مختصر
سی تعداد دو صفوں کی صورت میں دار ارقم سے باہر نکلی اور پہلی
مرتبہ کعبہ کے قریب ایک الله وحدہ لا شریک کی عبادت کی گیی -
اس طرح '' دار ارقم '' کو اسلامی تاریخ میں
ایک خاص مقام حاصل ہو گیا - اھلا'' کے آج کے سوال کی تصویر میں سرخ
دائرے میں جو مقام ظاہر کیا گیا ہے وہ '' دار ارقم '' کا موجودہ
مقام ہے - ( کلرڈ تصویر دیکھیں )
سعی کرتے ہوے حجاج یا زائرین عمرہ اس مقام کو
محسوس کر سکتے ہیں - اب یہاں کوئی بورڈ یا نشانی موجود نہیں جو
واضح کرے کہ یہ مقام دار ارقم ہے - صفا کی پہاڑی کی ڈھلوان سے اتر
تے ہی سیدھے ہاتھہ کی باہری دیوار کی قریب یہ مقام موجود ہے - آج
سے پچاس برس پہلے تک یہ گھر حرم کے باہر تھا اور اس پر '' دار ارقم
'' کا بورڈ بھی لگا تھا -
( اوپر دی گئی تصویر میں بلیک اینڈ واہیٹ
تصویر دیکھیں ) -
NEXT PAGE
PREVIOUS PAGE
LIST
PAGE