حجر اسود کی زیارت استنبول میں - احمد صفی......
===============================


جب سے بھائی وسیم احمد
صدیقی صاحب نے یہ معلومات بہم پہنچائیں کہ حجرِ اسود کے کچھ ٹکڑے
استنبول میں موجود ہیں تو ایک تڑپ بیدار ہوئی کہ ان کی زیارت کی
جائے۔ انہوں نے تین مقامات کا ذکر کیا اور دھندلی سی تصاویر شئیر
کیں:
1- سلطان سلیمان عالیشان کے مقبرے کے صدر دروازے پر
2- سلطان احمت مسجد یا نیلی مسجد کی محرابِ امام میں
3- سوکولو شہید مہمت پاشاء مسجد میں چار عدد ٹکڑے۔
اتفاقاً استنبول کا منصوبہ بن گیا۔ ایک سفر سے واپسی پر میں نے
سوچا ہماری ام ایمن بٹیا جو استنبول میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں ان
کے پاس رکتا چلوں۔
آج پانچ مارچ ٢٠١٩ کو ہم دونوں باپ بیٹی پہلے سلطان احمد مسجد
پہنچے اور پھر گوگل نقشہ جات کی مدد سے تیسرے نمبر کی مسجد تلاش
کی۔ ہمیں مغالطہ یہ ہوا کہ آیا صوفیہ صغیر یا آیا صوفیہ کوچک
نامی مسجد ہی سوکولو شہید مسجد کہلاتی ہے۔ سو ہم اسے ڈھونڈتے ہؤے
وہاں پہنچے۔ باہر لگے چشمے یا نلکے سے وضو کیا مارچ کے مہینے میں
برفیلے پانی نے جما دیا۔ ہم کشاں کشاں مسجد کی طرف چلے مگر اندر
داخل ہوتے ہی احساس ہؤا کہ یہ ہماری منزل مقصود نہیں۔۔۔ کیونکہ
اندر کی تعمیر تصاویر سے مختلف نظر آئی۔ یہ مسجد بھی خوبصورتی
میں اپنی مثال آپ ہی تھی۔ خیر وہاں تحیتہ المسجد اور دو رکعت ظہر
پڑھ کر باہر آئے اور نقشہ دوبارہ دیکھا۔
پتہ چلا کہ سوکولو شہید مسجد وہاں سے تھوڑی ہی دور پر ہے۔ سو ہم
نقشہ دیکھتے ہؤے چل پڑے۔ جلد ہی اونچے نیچے پتلے راستوں سے گزرتے
ہم وہاں پہنچ گئے۔
مسجد میں داخل ہوتےبہی گوہر مقصود مل گیا۔ سامنے محراب پر ایک
ننھا سا فریم نظر آگیا اور اس کے دائیں طرف رکھے منبر پر سب سے
اوپر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پیچھے ایک اور تقریباً اتنا ہی
بڑا فریم نظر آگیا۔ منبر کے دروازے پر سب سے قریب چھوٹا سا ایک
مستطیل کالا چمکدار پتھر جڑا ہؤا بھی نظر آ گیا۔ دل نے جیسے اچھل
کر گواہی دی کہ یہ تینوں پتھر واقعی حجر اسود کے ٹکڑے ہیں۔ چوتھا
ٹکڑا نظر نہ آیا تھا کہ ایک گارڈ جو دلچسپی سے ہمیں دیکھ رہا
تھا، مسکراتا ہؤا ہماری طرف بڑھا اور ہمارا رخ داخلی دروازے کی
طرف موڑ دیا۔۔۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ ہمیں کس چیز کی تلاش ہے۔ دروازے
کے اوپر درمیان میں چوتھا ٹکڑا چمکتا نظ آ رہا تھا۔ دل باغ باغ
ہو گیا۔ مسجد میں اور کوئی نہ تھا کیونکہ ظہر کی نماز دیر ہؤے
ادا کی جا چکی تھی اور عصر میں تقریباً دو گھنٹے باقی تھے۔
ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ چلو اس متبرک پتھر کی زیارت ہو
گئی۔ گارڈ نے ہمارا شوق اور محبت بھانپتے ہوے ٹوٹی پھوٹی انگریزی
میں پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ پاکستان کا نام سن کر ہر ترک بھائی کی
طرح اس کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چلو تم دونوں اس
منبر کے دروازے والے ٹکڑے کو چھو لو۔ میں نے بے یقینی سے اس کی
طرف دیکھا۔ اس نے ہنس کر کہا تم دور سے آئے ہو اور ابھی مسجد میں
لوگ بھی نہیں ہیں جلدی سے چھو لو۔ یہ کہہ کر اس نے سامنے لگی
ہوئی زرنگار رسیاں ہٹائیں، میز جس پر دو خوبصورت مصاحف رکھے تھے
وہ بھی ہٹا دی اور منبر کا پردہ سمیٹ دیا اور اشارے سے سیڑھی
چڑھنے کو کہا۔۔۔ ساتھ ہی متنبہہ کیا کہ اوپر والے حصے پر زور نہ
پڑے کہ وہ کمزور ہے۔ پہلے میں نے دروزے کے ستون کو پکڑا اور
دوسری یا تیسری سیڑھی پر پیر رکہ کر اچکتے ہؤے ہاتھ بڑھا
کر ایک انگلی سے حجر اسود کو چھؤا اور انگلی کو آنکھوں پر پھیر
لیا۔ اور نیچے اتر آیا۔ میرے بعد ام ایمن نے سنبھل کر چڑھتے ہؤے
بمشکل تمام حجر اسود کو چھؤا۔۔۔ اس کے لیے وہ بہت اونچائی پر
تھا۔
جیسے ہی ہم دونوں چھو کر ہٹے گارڈ صاحب نے فوراً پردا برابر کیا
اور تمام چیزوں کو ان کی جگہ پر واپس رکھ دیا۔ ہم نے گلے لگا کر
ان کا شکرءہ ادا کیا۔ ان سے پوچھا کہ ان ٹکڑوں کی تاریخ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سلیمان عالیشان کے والد سلطان سلیم اول
(1520ء-1470ء) حجر اسود کے پانچ ٹکڑوں کو حجاز مقدس سے لائے تھے۔
ان کے جانشین فرزند سلیمان عالیشان (1566ء-1494ء) کے پاس یہ ٹکڑے
خزانے میں شامل رہے۔ ان کے ایک وزیر سوکولو مہمت پاشا کی شہادت
کے بعد ان کی بیگم نے 1571ء میں انکے نام سے مسجد بنوائی۔ اس کی
تعمیر اس وقت کے مشہور معمار سنان نے کی۔ کس طرح ان کو یہ چار
ٹکڑے حجر اسود کے ملے اس کا علم نہیں لیکن انہیں یہاں خوبصورتی
سے نصب کر دیا گیا۔ پانچواں ٹکڑا سلیمان عالیشان کے مقبرے کے صدر
دروازے پر نصب ہے۔
ہم نے یہاں بھی تحیتہ المسجد ادا کی اور گارڈ صاحب کے ساتھ
باہر کو آئے۔
گارڈ صاحب نے باتوں میں یہ بھی
بتایا کہ سلطان احمت یا نیلی مسجد میں محراب میں نصب پتھر حجر
اسود نہیں ہے۔ ہم ان سے کافی دیر تک بات کرتے رہے حتیٰ کہ ہم
نے جانے کا قصد کیا اور چل کھڑے ہؤے۔ یوں ایک دیرینہ خواہش
اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی۔ تھوڑی دور پر سلطان احمت یا نیلی
مسجد تھی وہاں پہنچ کر گھوم پھر کر اسے دیکھا۔۔۔ محراب پر لگے
پانچ پتھروں کے حجم سے یہی اندازہ ہؤا کہ شاید بیچ والا سیاہ
پتھر شاید حجر اسود نہ ہو۔ بعد میں چند احباب نے بھی یہی بات
کی۔ خیر اتنے۔میں عصر کی نماز کا وقت ہؤا پہلی صف میں امام کے
بائیں جانب نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہؤا جس کے بعد ہم اور
مقامات کی سیر کو نکل کھڑے ہؤے۔
وسیم بھائی کے شکریے کے ساتھ یہ تحریر اور وہاں کی تصاویر حسبِ
وعدہ ان تک پہنچا رہے ہیں کہ اسے پوسٹ کرنے کا حق انہی کو ہے اور
شاید اس طرح ہم بھی اھلاً سائیٹ میں کچھ شامل کرنے کا شرف حاصل
کرلیں
طالب الدعا
احمد صفی
استنبول، ترکی
========================

========================

========================

========================.

========================

========================

========================

========================

========================

========================

========================

========================

========================

========================

========================
تصاویر ترتیب وار ہیں
پہلے مسجد کے راستے کے آثار پھر وہاں پہنچنے کے اور
پھر چاروں ٹکڑوں کی جائے تنصیب اور پھر ان کے کلوز اپ اور
آخر میں منبر والے ٹکڑے کو چھوتے ہؤے میری اور ام ایمن کی
تصاؤیر۔
پھر باہر کے چند مناظر
NEXT PAGE
PREVIOUS
PAGE
LIST PAGE
//